نظر کو تیر، ادا کو کماں بناتے ہیں
یہ دیکھیۓ وہ کسے نیم جاں بناتے ہیں
ہماری ذات ہے خود کارواں بھی ، محفل بھی
ہم انجمن نہ کوئی کارواں بناتے ہیں
تمہیں یہ حق ہے گھٹاؤں کا انتظار کرو
سفر میں دھوپ کو ہم سائباں بناتے ہیں
جو دیکھنے میں حقیر و فقیر ہیں لیکن
جسے بھی چاہ لیں شاہِ جہاں بناتے ہیں
ہم اہلِ دل ہیں محبت ہمارا شیوہ ہے
وہ اور ہیں کہ جو تیغ و سناں بناتے ہیں
حیات ہوتی ہے فٹ پاتھ پر بسر جن کی
تصورات میں وہ بھی مکاں بناتے ہیں
ضمیر دیکھے ہیں شاطر کچھ ایسے ہم نے جو
گماں یقیں کو، یقیں کو گماں بناتے ہیں
ضمیر یوسف
No comments:
Post a Comment