دماغوں میں جو بیٹھی ہے وہ عیاری نہیں جاتی
دوائیں فیل ہو جاتی ہیں،۔ بیماری نہیں جاتی
سرایت کر گئی فرقہ پرستی خوں میں کچھ ایسے
لگاؤ لاکھ ٹیکا یہ مہا ماری نہیں جاتی
فقط اسٹیج سے کرتے ہیں وہ باتیں محبت کی
اداکاروں کی یہ خوئے اداکاری نہیں جاتی
بھلا ہو بی سیاست کا ریزرویشن کے چکر میں
پڑھے لکھے جو ہیں ان کی ہی بیکاری نہیں جاتی
جنہیں لت پڑ چکی ہے قوم کو احمق بنانے کی
کریں وہ لاکھ توبہ ان کی ہشیاری نہیں جاتی
ظفرحالات کیسے موڑ پر لے آئے ہیں ہم کو
جو بھولے سے بھی دل خوش ہو تو بیزاری نہیں جاتی
ظفر کمالی
No comments:
Post a Comment