جو مجھ کو دیکھتے تھکتا نہیں تھا
وہ اتنا تو بدل سکتا نہیں تھا
کہاں اب کوئی ویسا شہر بھر میں
یہ جانا آدمی یکتا نہیں تھا
ہُوا بے زار ایسا، پھر نہ لوٹا
کدورت دل میں جو رکھتا نہیں تھا
شجر کو بد دعا کیسی لگی تھی
ثمر لگتا تھا، اور پکتا نہیں تھا
ہوئی چاہت علامت کے حوالے
بیاں میں نام آ سکتا نہیں تھا
مجھے آخر وہ کیسے ڈھونڈ لیتا
کہ دل میں آنکھ جو رکھتا نہیں تھا
نرجس افروز زیدی
No comments:
Post a Comment