Monday, 8 November 2021

جو مجھ کو دیکھتے تھکتا نہیں تھا

 جو مجھ کو دیکھتے تھکتا نہیں تھا

وہ اتنا تو بدل سکتا نہیں تھا

کہاں اب کوئی ویسا شہر بھر میں

یہ جانا آدمی یکتا نہیں تھا

ہُوا بے زار ایسا، پھر نہ لوٹا

کدورت دل میں جو رکھتا نہیں تھا

شجر کو بد دعا کیسی لگی تھی

ثمر لگتا تھا، اور پکتا نہیں تھا

ہوئی چاہت علامت کے حوالے

بیاں میں نام آ سکتا نہیں تھا

مجھے آخر وہ کیسے ڈھونڈ لیتا

کہ دل میں آنکھ جو رکھتا نہیں تھا


نرجس افروز زیدی

No comments:

Post a Comment