Monday, 8 November 2021

جو زخم میں نے تجھے دئیے ہیں

طبیب اعظم


جو زخم میں نے تجھے دئیے ہیں

جو زخم تو نے مرے خیالوں کے ان

گداز اعضاء پہ دئیے ہیں

وہ اب فضا میں بکھر گئے ہیں

ہمارے جسموں کی قید سے وہ

نکل گئے ہیں

بکھر گئے ہیں ہر ایک شے میں

ہوا میں پیڑوں میں بادلوں میں

وہ کوہ و دریا کی چپیوں

اور شور و غل میں اتر گئے ہیں

جدھر بھی دیکھوں

وہ زخم چپکے چپکے

رِس رہے ہیں

جو باغ میں اک کلی کو چھو لوں

تو انگلیوں پہ مواد سا کچھ

دکھائی دے دے

جو بادلوں سے ٹپکے پانی

تو بوند میں سڑ رہے لہو کی

مہک سی آئے

کبھی جو گھبرا کے کوئی

کتاب اٹھا لوں

تو اس کے پنوں پہ

پٹیوں کا گماں ہو جو کہ

ابھی اتاری گئی ہوں

کسی کے زخم خوردہ بدن سے

سنا ہے ہم نے

کہ وقت تو ایک چارہ گر ہے

اور اس کی زنبیل میں

کتنے نسخے

کہاں نہ جانے وہ گم ہوا ہے

کہ لمحے لمحے میں کس جتن سے

ڈھونڈتا ہوں

کہانیوں میں ہے ذکر جس کا

وہ تیرا میرا وقت جو ہے

طبیب اعظم


سنجے کمار کندن

No comments:

Post a Comment