ہے جس کا حکم کہ رہزن کو رہنما کہیۓ
سنبھل سنبھل کے اسے اپنا پیشوا کہیۓ
وہ ایک شخص جو ننگا ہے ساری محفل میں
عجیب ضد ہے کہ اب اس کو با حیا کہیۓ
مزاج داں ہوں میں لیکن انا کا پاس بھی ہے
یہ کیسے پوچھتا ان سے مِری خطا کہیۓ
بغیر عرضِ تمنا کے دل بہت خوش تھا
یہ کس نے کہہ دیا ہم سے کہ مدعا کہیۓ
زبان کی ڈور ہے اب مصلحت کے ہاتھوں میں
بُرے کو اچھا تو اچھے کو اب بُرا کہیۓ
ہماری یاد بھی آتی نہیں جنہیں انجم
انہی کے سامنے کیا دل کا ماجرا کہیۓ
مشتاق انجم
No comments:
Post a Comment