نگاہ و رخ پر ہے لکھی جاتی جو بات لب پر رکی ہوئی ہے
مہک چھپے بھی تو کیسے دل میں کلی جو غم کی کھلی ہوئی ہے
جو دل سے لپٹا ہے سانپ بن کر ڈرا رہا ہے بچا رہا ہے
یہ ساری رونق اس اک تصور کے دم سے ہی تو لگی ہوئی ہے
خیال اپنا،۔ کمال اپنا،۔ عروج اپنا،۔ زوال اپنا
یہ کن بُھلیّوں میں ڈال رکھا ہے کیسی لِیلا رچی ہوئی ہے
ہم اپنی کشتی سراب گاہوں میں ڈال کر منتظر کھڑے ہیں
نہ پار لگتے نہ ڈوبتے ہیں، ہر اک روانی تھمی ہوئی ہے
ازل ابد تو فقط حوالے ہیں وقت کی بے مقام گردش
خبر نہیں ہے تھمے کہاں پر کہاں سے جانے چلی ہوئی ہے
بھڑک کے جلنا نہیں گوارا، تو میرے پروردگار مولا
نہ ایسی آتش نفس میں بھرتے کہ جس سے جاں پر بنی ہوئی ہے
نجیبہ عارف
No comments:
Post a Comment