Sunday, 7 November 2021

آج پھر مجھ سے مرا کمرہ مخاطب ہے

 آج پھر مجھ سے


آج پھر مجھ سے

مِرا کمرہ مخاطب ہے

دراڑیں وہ کبھی

چھت کی دکھاتا ہے

کبھی دیوار میں پڑتے شگافوں کو

نشاں جھلسے ہوئے رنگوں کا مجھ کو

مبتلا کر دیتا ہے ہیبت میں

مکڑی کے سبک جالے

ہوا کے دوش پر لہرانے لگتے ہیں

زوال زندگی کا وہ پتہ بھی دینے لگتے ہیں

زمیں کمرے کی

بوسیدہ کہانی جب سناتی ہے

کواڑوں سے صدا اٹھتی ہے

رونے اور سسکنے کی

کبھی آہیں سی بھرنے کی

انہیں لمحوں کے سائے میں مگر

کچھ جھانکتی انگور کی بیلیں

دریچے سے تبسم کا شگفتہ عکس

دکھلاتی ہیں آنکھوں کو


جعفر ساہنی

No comments:

Post a Comment