Sunday, 7 November 2021

ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے

 ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے

گردش میں جب سانسوں کا پیمانہ ہوتا ہے

ہم کو تو بس آتا ہے سانسوں کا کاروبار

کیا کھونا ہوتا ہے، اور کیا پانا ہوتا ہے

دل کی ضد پر اس سے ملنا پڑتا ہے ہر روز

اور پھر ساری دنیا کو سمجھانا پڑتا ہے

آنکھیں بھر آتی ہیں میری ہنس لینے کے بعد

شہر سے آگے اکثر ویرانہ پڑتا ہے

روز کوئی پہنا دیتا ہے خوابوں کی پازیب

اور پھر ناچ کے دنیا کو دکھلانا ہوتا ہے

کھو دینا ہوتا ہے خود کو دن ہونے کے ساتھ

شام ڈھلے تک پھر سے خود کو پانا ہوتا ہے

پہلے ثابت ہوتا ہے اس سے ملنے کا جرم

اور پھر مجھ پہ یادوں کا جرمانہ ہوتا ہے


سرفراز خالد

No comments:

Post a Comment