ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے
گردش میں جب سانسوں کا پیمانہ ہوتا ہے
ہم کو تو بس آتا ہے سانسوں کا کاروبار
کیا کھونا ہوتا ہے، اور کیا پانا ہوتا ہے
دل کی ضد پر اس سے ملنا پڑتا ہے ہر روز
اور پھر ساری دنیا کو سمجھانا پڑتا ہے
آنکھیں بھر آتی ہیں میری ہنس لینے کے بعد
شہر سے آگے اکثر ویرانہ پڑتا ہے
روز کوئی پہنا دیتا ہے خوابوں کی پازیب
اور پھر ناچ کے دنیا کو دکھلانا ہوتا ہے
کھو دینا ہوتا ہے خود کو دن ہونے کے ساتھ
شام ڈھلے تک پھر سے خود کو پانا ہوتا ہے
پہلے ثابت ہوتا ہے اس سے ملنے کا جرم
اور پھر مجھ پہ یادوں کا جرمانہ ہوتا ہے
سرفراز خالد
No comments:
Post a Comment