Sunday, 7 November 2021

بہار رت تھی مگر ہر شجر ہی زرد ملا

 بہار رُت تھی مگر ہر شجر ہی زرد ملا

ملی تھی زندگی کیوں کر، لہو جو سرد ملا

کہاں طلب تھی مکمل جہان مل جاتا

مگر سوال ہے چاہا جسے، وہ فرد ملا ؟

یہ وحشتوں کا سفر اب بھی نا مکمل ہے

کہ جب بھی پاؤں دھرے راستہ یہ گرد ملا

خیالِ یار وسیلہ بنا ہے جینے کا

جنوں کے مارے ہیں جب بھی ملا ہے درد ملا

بچھڑ کے ہم سے یوں رویا نہیں ستمگر وہ

کہ مرد روتا نہیں اور ہم کو مرد ملا


ہما علی

No comments:

Post a Comment