ان کے ہونٹوں پہ محبت کی جو ہاں پڑتی ہے
تب کہیں جا کے مِری جان میں جاں پڑتی ہے
اس پری وش کا تعارف کہ گلی میں اس کی
سلسلہ وار چراغوں کی دُکاں پڑتی ہے
کہہ رہا ہوں میں جو یہ شعر صحیفوں جیسے
درمیاں اس کے مِرے، اردو زباں پڑتی ہے
میں نے اور عشق نے اک ساتھ جو مانگی تھی کبھی
وہ دعا تیری ہتھیلی سے عیاں پڑتی ہے
ندیم ناجد
No comments:
Post a Comment