ملا جہان میں جو بھی اداس اداس ملا
ہمارے عہد کا ہر شخص بدحواس ملا
تلاش جس کی مجھے دور دور رہتی تھی
کھلی جو آنکھ تو وہ میرے دل کے پاس ملا
پڑھا کبھی جو تِری زندگی کا افسانہ
مِرے لہو کا کچھ اس میں بھی اقتباس ملا
سمجھ رہا تھا زمانہ ہے ساتھ ساتھ مگر
نظر اٹھائی تو ویرانہ آس پاس ملا
شمیم ان کی عنایت ہے اور کیا کہیۓ
کہ میری فکر و نظر کو نیا لباس ملا
شمیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment