Thursday, 4 November 2021

وفا کی منزل مقصود ہی وصال نہ ہو

 وفا کی منزلِ مقصود ہی وصال نہ ہو

تو ظرفِ عشق کو اندیشۂ زوال نہ ہو

وفا بہ شرطِ مآلِ وفا نہیں کرتا

بلا سے زخمِ جدائی کا اندمال نہ ہو

کرے گا مطلبی آغازِ عشق سے ہی گریز

اگر وصال کا کوئی بھی احتمال نہ ہو

بجا کہ حسن کے لاکھوں ہی استعارے ہیں

یہ اور بات کہ تیری کوئی مثال نہ ہو

کہ بات دل میں اتر جائے بِن کہے جاناں

قمر کے ہاتھ میں ممکن ہے یہ کمال نہ ہو


قمر زیدی

No comments:

Post a Comment