Thursday, 4 November 2021

غم کی کس شکل میں تشکیل ہوئی جاتی ہے

 غم کی کس شکل میں تشکیل ہوئی جاتی ہے

آدمیت کی بھی تذلیل ہوئی جاتی ہے

ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر

جس طرح کانچ میں تبدیل ہوئی جاتی ہے

اس کے حصے کی زمینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں

مستقل طور پہ تحصیل ہوئی جاتی ہے

اب مِرا اس سے تعلق بھی نہِیں ہے کوئی

اور احکام کی تعمیل ہوئی جاتی ہے

میں نے کھائی تھی قسم اس کا بھرم رکھ لوں گا

پر بیاں ساری ہی تفصیل ہوئی جاتی ہے

اور کچھ روز مِرا ظرف کشاکش میں رہے

اس بہانے مِری تکمیل ہوئی جاتی ہے

سارا دن دھوپ میں جلتا ہوں فقط روٹی کو

زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہوئی جاتی ہے

ابرہہ بن کے نہ کر میرے حرم پر حملہ

بے بسی اب تو ابابِیل ہوئی جاتی ہے

کس تکلّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا

یاد کی رو ہے کہ تمثیل ہوئی جاتی ہے

اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسر ہے کہاں

زِندگی بھوک میں تحلیل ہوئی جاتی ہے

میں سمجھتا تھا اسے بھول گیا ہوں حسرت

پر چُبھن دل میں مِرے کِیل ہوئی جاتی ہے


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment