Thursday, 4 November 2021

زخمی دلوں کی پیاس سرابوں میں گم ہوئی

 زخمی دلوں کی پیاس سرابوں میں گم ہوئی

جو چشم وا تھی بجھتے چراغوں میں گم ہوئی

پھرتی ہے اس کو ڈھونڈتی اب موت کو بہ کو

یہ زندگی تو تیری نگاہوں میں گم ہوئی

چلنا لکھا ہے اپنے مقدر میں عمر بھر

منزل ہماری درد کی راہوں میں گم ہوئی

ہم ڈھونڈنے چلے ہیں کہاں پیکرِ خیال

چشمِ ہوس تو گمشدہ خوابوں میں گم ہوئی

خوشبو نے رستہ چھوڑ دیا انتظار کا

مٹی میں خفتہ بکھرے گلابوں میں گم ہوئی

اوراق کے پلٹنے سے کچھ بھی نہیں ملا

دانش ہماری ساری کتابوں میں گم ہوئی

مامون ذوقِ عشق سے ملتا بھی کیا ہمیں

آبِ رواں کی موج کتابوں میں گم ہوئی


خلیل مامون

No comments:

Post a Comment