متاعِ غائبانہ ڈھونڈتے ہیں
کھنڈر میں وہ خزانہ ڈھونڈتے ہیں
لیے ارماں کی ہم خالی انگوٹھی
کوئی موتی کا دانہ ڈھونڈتے ہیں
کبھی بچوں کو مکتب ڈھونڈتا تھا
اب اہلِ کارخانہ ڈھونڈتے ہیں
مِرے قصے میں ہیں کچھ لفظ گونگے
جو مفہومِ فسانہ ڈھونڈتے ہیں
کہاں انسانیت جا کر بسی ہے
اسے ہم خانہ خانہ ڈھونڈتے ہیں
نئی تہذیب کے مارے ہوئے لوگ
گپھاؤں میں ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
سنورنا بھی جنہیں آیا نہیں ہے
مگر آئینہ خانہ ڈھونڈتے ہیں
جہاں سہیل اپنا سر جھکا دے
ہم ایسا آشیانہ ڈھونڈتے ہیں
سہیل فاروقی
No comments:
Post a Comment