عجیب روگ لگایا ہے جان کے پیچھے
پڑا ہوا ہوں اسی بدگمان کے پیچھے
فضول کرتی ہے سورج سے بے رُخی کا گِلہ
وہ کھولیاں جو ہیں اونچے مکان کے پیچھے
بدل گیا ہے بہت اب مزاجِ راہبری
ضعیف لوگ رہیں نوجوان کے پیچھے
نہیں تو بارشِ رحمت کہاں سے آتی ہے
کوئی ضرور ہے اس آسمان کے پیچھے
بہا کے لے گئی اپنی قیام گاہ کہاں
جو اک ندی تھی ہمارے مکان کے پیچھے
نظر سے اہل نظر کی چھپی نہیں ہے سہیل
جو پستیاں ہیں امیروں کی شان کے پیچھے
سہیل فاروقی
No comments:
Post a Comment