حال دل کا کہا نہیں جاتا
اور چپ بھی رہا نہیں جاتا
ہو گا کچھ تجھ میں ایسا ورنہ دل
ہر کسی کو دیا نہیں جاتا
ان کے دل کی طرف بتا رہبر
کیا کوئی راستہ نہیں جاتا
کیوں قفس سے لگاؤ یہ بلبل
گو رہا ہو گیا، نہیں جاتا
خود جیو دوسروں کو جینے دو
یوں بھلا کیوں جیا نہیں جاتا
بس کر اے آسمان تیرا ستم
اور ہم سے سہا نہیں جاتا
ہے نکیرین عمر بھر کی تھکن
مت جگاؤ، اٹھا نہیں جاتا
دو گھڑی بانٹ لو کسی کا غم
اس میں کچھ عالیہ نہیں جاتا
عالیہ تقوی
No comments:
Post a Comment