اپنی باتیں کب دریا سے کہتی ہے
وہ ندیا جو صحرا صحرا بہتی ہے
کیا کچھ دب جاتا ہے اس کے ملبے میں
وہ دیوار جو دل کے اندر ڈہتی ہے
رات سے پہلے رات کی باتیں کرتا ہے
میرے دن کو کتنی عجلت رہتی ہے
رہ جائے گر شاخ پھلوں سے خالی تو
ہر موسم کے طعنے تنہا سہتی ہے
غزلیں کہنا میں نے بھی اب چھوڑ دیا
اور وہ بھی اب پار سمندر رہتی ہے
نوید حیدر ہاشمی
No comments:
Post a Comment