Saturday, 6 November 2021

اپنی باتیں کب دریا سے کہتی ہے

 اپنی باتیں کب دریا سے کہتی ہے

وہ ندیا جو صحرا صحرا بہتی ہے

کیا کچھ دب جاتا ہے اس کے ملبے میں

وہ دیوار جو دل کے اندر ڈہتی ہے

رات سے پہلے رات کی باتیں کرتا ہے

میرے دن کو کتنی عجلت رہتی ہے

رہ جائے گر شاخ پھلوں سے خالی تو

ہر موسم کے طعنے تنہا سہتی ہے

غزلیں کہنا میں نے بھی اب چھوڑ دیا

اور وہ بھی اب پار سمندر رہتی ہے


نوید حیدر ہاشمی

No comments:

Post a Comment