قدموں سے میرے گردِ سفر کون لے گیا
منزل پہ راستے کی خبر کون لے گیا
رُوئے افق سے نورِ سحر کون لے گیا
اس اوج تک کمندِ نظر کون لے گیا
رکھ دی گئی تھی قدموں پہ اس کے اتار کر
دستار جانتی ہے کہ سر کون لے گیا
اس سطح پر کسے تھا مِری ذات کا شعور
اتنی تہوں میں آ کے گہر کون لے گیا
سوکھے درخت نیزوں کی صورت گڑے ہوئے
وہ برگ و گل وہ شاخ و ثمر کون لے گیا
غلام مرتضیٰ راہی
No comments:
Post a Comment