Saturday, 6 November 2021

رات بھر سوئی تو کبھی جاگی ہوئی آنکھیں

 رات بھر سوئی تو کبھی جاگی ہوئی آنکھیں

ریشمی خوابوں میں لپٹی ہوئی آنکھیں

شب بھر یہ خواب کی مے پیتی رہی

دن کے ہنگاموں سے تھکی ہوئی آنکھیں

کر کے آئی ہیں طویل خلاؤں کا سفر

نیند کے پر لیے اڑتی ہوئی آنکھیں

حقیقت کے دھوپ سے چندھیا رہی ہیں

صحن خواب میں کھیلتی ہوئی آنکھیں

آہٹِ سحر پا کے چونک پڑی ہیں

کرنوں کی لو سے پگھلتی ہوئی آنکھیں


تاثیر صدیقی

No comments:

Post a Comment