رات بھر سوئی تو کبھی جاگی ہوئی آنکھیں
ریشمی خوابوں میں لپٹی ہوئی آنکھیں
شب بھر یہ خواب کی مے پیتی رہی
دن کے ہنگاموں سے تھکی ہوئی آنکھیں
کر کے آئی ہیں طویل خلاؤں کا سفر
نیند کے پر لیے اڑتی ہوئی آنکھیں
حقیقت کے دھوپ سے چندھیا رہی ہیں
صحن خواب میں کھیلتی ہوئی آنکھیں
آہٹِ سحر پا کے چونک پڑی ہیں
کرنوں کی لو سے پگھلتی ہوئی آنکھیں
تاثیر صدیقی
No comments:
Post a Comment