Thursday, 4 November 2021

کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مسکائے

 کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مُسکائے

کبھی ٹھہروں تو پتھریلی زمیں کی آنکھ بھر آئے

کبھی خود کو پڑھوں تو چاند کے لب تھرتھرا جائیں

کبھی کچھ یوں لکھوں کہ آسماں کا دل پگھل جائے

کبھی ٹھنڈی ہوائیں آ کے کھیلیں میرے گیسو سے

کبھی خوشبو مِری زلفوں میں آ کر قید ہو جائے

کبھی ساون بُجھائے پیاس اپنی میرے اشکوں سے

کبھی دریا مِری آنکھوں میں اُترے اور شرمائے

کبھی یوں ہو کہ پتھر کو میں قطرہ قطرہ پی جاؤں

کبھی یوں ہو شرارہ مجھ کو چُھوتے ہی پگھل جائے

کبھی رنگین بارش سُرخ کر دے اوڑھنی میری

کبھی قوسِ قزح کا رنگ چہرے پر بکھر جائے

کبھی مجھ سے ہی آ کر تتلیاں میرا پتہ پوچھیں

کبھی اک مورنی میرے پروں پر خوب اِترائے

کبھی سورج کی کرنیں مانگ میں پھیلا کے کھو جاؤں

کبھی کر دوں فضا کو مضطرب، وہ آگ برسائے

کبھی اُبھرے فصیلِ زندگی پر بن کے سورج وہ

کبھی نغمہ شبِ تاریک میں مہ تاب بن جائے


نغمہ نور

No comments:

Post a Comment