Thursday, 4 November 2021

دہشت سے سب کو نفرت ہو

 دہشت سے سب کو نفرت ہو


جانے کس طرح یہ دہشت پھیلی

صبح تا شام ہے قیامت سی

جانے کس کوکھ میں پلی و بڑھی

اور سر اپنا یہ اٹھانے لگی

قتل و غارت گری مچانے لگی

ہر طرف جوئے خوں بہانے لگی

موت اپنے گلے لگانے لگی

اس کا مذہب نہ ذات پات کوئی

اس کو حاصل کہاں ثبات کوئی

یہ تو کچھ سر پھروں کی سازش ہے

بزدلی کی فقط نمائش ہے

خود کشی اور بم دھماکوں سے 

حل کبھی مسئلے نہیں ہوتے

ابنِ آدم اگر ہوا اے لوگو

امن کا ہر اصول اپناؤ

 دل سے اپنا کے خیر کا جذبہ

کارِ شیطان سے کرو توبہ

کیوں کوئی مائلِ عداوت ہو

یعنی دہشت سے سب کو نفرت ہو


کمال جعفری

No comments:

Post a Comment