Saturday, 25 December 2021

جس پل سے ترا عشق ہمیں دان ہوا ہے

 جس پل سے تِرا عشق ہمیں دان ہوا ہے

پہلے جو کٹھن تھا، وہی آسان ہوا ہے

اُلفت کا بھی کیا خوب ہی احسان ہوا ہے

اب نام تمہارا مِری پہچان ہوا ہے

یہ بُھول گیا فرطِ مسرت میں دھڑکنا

اس دل میں تِرا درد جو مہمان ہوا ہے

جاتی ہے تو جاں جائے، نہ جائے گا یہ دل سے

یہ عشق ہمیں صورتِ ایمان ہوا ہے

فریاد، نہ شکوہ، نہ فغاں، مہر بہ لب ہوں

وہ ضبط مِرا دیکھ کے حیران ہوا ہے

اشکوں کی سیاہی بھرے مژگاں کے قلم سے

تحریر غمِ ہجر کا فرمان ہوا ہے

گلشن کی تباہی پہ نہ ہو گی کوئی فریاد

گل چِیں سے عنادل کا یہ پیمان ہوا ہے

لے آئے کوئی آنکھ میں امید کے جگنو

تاریک مِرے دل کا شبستان ہوا ہے

اک یاد تمہاری بھی گئی ہاتھ سے جس کے

عاطف سا بھی کوئی تہی دامان ہوا ہے


عاطف ملک

عین میم

No comments:

Post a Comment