مجھ پہ ہو جائے ہر اک سمت وا محبت کی
میں نے اس واسطے دو مرتبہ محبت کی
یہ ہے وہ پھول کہ جنگل میں اپنے آپ کھلے
جانتے بوجھتے گر کی، تو کیا محبت کی
میں تو ڈرتا ہوں خدا حشر میں یہ پوچھ نہ لے
باقی سب چھوڑ، فقط یہ بتا! محبت کی؟
اس کے اثرات کی زد میں فقط لباس آئے
اب کے موسم جو چلی ہے ہوا محبت کی
جھوٹ کہنا ہے تو سر میرا تیرے سامنے ہے
جھوٹ کے واسطے قسمیں نہ کھا محبت کی
عبدالوہاب عبدل
No comments:
Post a Comment