ہماری زباں پر جو تالے پڑے ہیں
ہیں شِکوے کسی کے، جو ٹالے پڑے ہیں
نہیں کھول پائے تِرے آخری خط
ابھی تک لفافے، سنبھالے پڑے ہیں
کسی چشمِ تر کا نمک چکھ لیا تھا
یونہی تو نہیں لب پہ چھالے پڑے ہیں
کوئی منتظر ہے کسی فیصلے کا
کئی دن سے کپڑے نکالے پڑے ہیں
سرِ آئینہ چھو کے دیکھو لبوں کو
وہیں پر ہمارے ازالے پڑے ہیں
نہ ویران دل میں بسیرے کا سوچو
پرانی حویلی ہے، جالے پڑے ہیں
سنبھالے ہوئے ہیں ابھی تک وہ پتھر
جو لوگوں نے ہم پر اچھالے پڑے ہیں
نہیں بھوک لگتی کہ دل بھر گیا ہے
رکابی میں ٹوٹے نوالے پڑے ہیں
چلو اس گلی میں ستارہ شناسو
کسی آنکھ میں کچھ حوالے پڑے ہیں
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment