Saturday 24 December 2022

قصۂ زیست مختصر کرتے

 قصۂ زیست مختصر کرتے

کچھ تو اپنی سی چارہ گر کرتے

موت کی نیند سو گئے بیمار

روز کس شام کو سحر کرتے

سچ ہے ہر نالہ کیوں رسا ہوتا

میرے نالے تھے کیوں اثر کرتے

خود وفا کیا وفا کا بدلہ کیا

لطف احسان تھا اگر کرتے

کر لیا تیرے نام پر سجدہ

اب کہاں قصدِ سنگِ در کرتے

آس ہوتی تو اس سہارے پر

صبر ممکن نہ تھا مگر کرتے

کاش آئینہ ہاتھ سے رکھ کر

تم مِرے حال پر نظر کرتے

طولِ رودادِ غم معاذ اللہ

عمر گزری ہے مختصر کرتے

غم نے مہلت نہ دی کہ ہم فانی

اور کچھ دن ابھی بسر کرتے


فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment