شدت بہار کی بھی گوارا نہیں مجھے
پھولوں کے توڑنے کا بھی یارا نہیں مجھے
موجوں سے کھیلتا ہوں ارادوں کا دور ہے
موجوں میں آرزوئے کنارہ نہیں مجھے
میں گر پڑا تھا راہ میں چلتے ہوئے مگر
پھر بھی تو دوستوں نے پکارا نہیں مجھے
کس دن چبھی نہیں ہیں مصائب کی کرچیاں
کس دن تمہارے غم نے سنوارا نہیں مجھے
رہتا ہوں آرزوؤں کے چھوٹے سے شہر میں
خوش ہوں کہ آرزوئے بخارا نہیں مجھے
تم میری جاں ہو جاں کا بھروسا مگر نہیں
یعنی کہ اعتبار تمہارا نہیں مجھے
عابد ودود
No comments:
Post a Comment