اک تیری آواز کے تعاقب میں
ناجانے میں نے کتنے نمبر بدلے
کہ کسی طرح تم میرا فون اٹھاؤ
اور ادھر سے چنچل سی آواز میرے کانوں میں گونجے
اور میں ہواؤں میں اڑنے لگوں
مگر پھر خوشی دم توڑے
جب یہ پوچھو کون ہو تم کیوں فون کر رہے ہو مجھے
تو میرے دل سے اک آہ نکلے
جو فرش سے عرش تک کو ہلا دے
اور میں بے بسی سے اپنا فون بند کر دوں
اس امید پہ کہ تم ایک دن خود مجھے فون کرو گی
اور پوچھوں گی مجھ سے حال میرا
اور میں رو رو کہ تمہیں سارا دکھڑا سناؤں گا
مگر مجھے اب یاد آیا
بے سبب کی گفتگو کیوں
جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر
ایسی آس پہ کیوں جیوں
ادریس اکبر
No comments:
Post a Comment