چہرے کے خد و خال میں آئینے جڑے ہیں
ہم عمر گریزاں کے مقابل میں کھڑے ہیں
ہر سال نیا سال ہے،۔ ہر سال گیا سال
ہم اڑتے ہوئے لمحوں کی چوکھٹ پہ پڑے ہیں
دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر
اپنے قد و قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں
شاید کہ ملے ذات کے زنداں سے رہائی
دیوار کو چاٹا ہے، ہواؤں سے لڑے ہیں
اڑتے ہیں پرندے تو یہاں جھیل بھی ہوگی
تپتا ہے بیابان بدن،۔ کوس کڑے ہیں
شاید کوئی عیسیٰ نفس آئے انہیں پوچھے
یہ لفظ جو بے جان سے کاغذ پہ پڑے ہیں
اس بات کا مفہوم میں سمجھا نہیں اختر
تصویر میں ساحل پہ کئی کچے گھڑے ہیں
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment