میں جانتا ہوں اگر موت درمیان نہ ہو
خدا کے نام کی کعبے میں بھی اذان نہ ہو
اگر یقیں ہو کہ اب بے نشاں نہیں ہونا
کسی جبیں پہ کسی فرض کا نشان نہ ہو
برائے آدمی قائم ہے دفترِ افلاک
جو وہ نہ ہو تو ستاروں کا خاندان نہ ہو
ہے آسمان فرشتوں کی سرزمین اگر
تو پھر زمین کہیں اُن کا آسمان نہ ہو
اسی کی ذات پہ کھلتی ہے ذات سورج کی
کہ جس کا دُھوپ کے محشر میں سائبان نہ ہو
محَل بہشت میں ہونے کا کیا یہ مطلب ہے
کہ میرے شہر میں میرا کوئی مکان نہ ہو
خدا کے منکرو! بتلاؤ، کیا یہ ممکن ہے
کہ سُرخ اونٹ ہوں اور اُن کا ساربان نہ ہو
یہ سوچ کر ہیں پریشان قصہ گو واصف
جو داستان ہے آدمؑ کی، داستان نہ ہو
جبار واصف
No comments:
Post a Comment