Friday, 30 December 2022

میں جانتا ہوں اگر موت درمیان نہ ہو

میں جانتا ہوں اگر موت درمیان نہ ہو

خدا کے نام کی کعبے میں بھی اذان نہ ہو

اگر یقیں ہو کہ اب بے نشاں نہیں ہونا

کسی جبیں پہ کسی فرض کا نشان نہ ہو

برائے آدمی قائم ہے دفترِ افلاک

جو وہ نہ ہو تو ستاروں کا خاندان نہ ہو

ہے آسمان فرشتوں کی سرزمین اگر

تو پھر زمین کہیں اُن کا آسمان نہ ہو

اسی کی ذات پہ کھلتی ہے ذات سورج کی

کہ جس کا دُھوپ کے محشر میں سائبان نہ ہو

محَل بہشت میں ہونے کا کیا یہ مطلب ہے

کہ میرے شہر میں میرا کوئی مکان نہ ہو

خدا کے منکرو! بتلاؤ، کیا یہ ممکن ہے

کہ سُرخ اونٹ ہوں اور اُن کا ساربان نہ ہو

یہ سوچ کر ہیں پریشان قصہ گو واصف

جو داستان ہے آدمؑ کی، داستان نہ ہو


جبار واصف

No comments:

Post a Comment