عین منزل پہ آ کے کہوں کیا کہ یہ راستا اور ہے
ہم غلط آ گئے ہیں یہاں یا خدا کا پتا اور ہے؟
اب ہوس ہی نہیں عاشقی کی بھی معیاد کم ہے ذرا
دیکھ لو دعویداروں کی فہرستِ خوش کن میں کیا اور ہے
ہم سے یہ کوہِ وحشت ہو سر تو غمِ خیر و شر بھی کریں
یوں بھی اپنے لیے اب حسابِ سزا و جزا اور ہے
اتنا ملنا ملانا بھی ہم سادہ لوحوں کے بس کا کہاں
دیکھنا اور ہے، سوچنا اور ہے، بولنا اور ہے
سو سلام آپ کے جذبۂ خدمتِ خلق کو بھی، مگر
کیا کریں وہ جنہیں ہو چکی ہو خبر، ماجرا اور ہے
ہم تو ایثار کی انتہا کرنے والے تھے تیرے یے
خیر اچھا لگا جان کر، اب تِرا مسئلہ اور ہے
ہم جسے ایک دُوجے کو پانے کی بیتابی سمجھے عدیل
ہم پہ یہ ایک دُوجے کو پا کر کُھلا، وہ خلا اور ہے
عدیل شاکر
No comments:
Post a Comment