Thursday 29 December 2022

تیری وفا کا ہم کو گماں اس قدر ہوا

 تیری وفا کا ہم کو گماں اس قدر ہوا

آیا نظر نہ کچھ بھی دھواں اس قدر ہوا

مل کر بھی ہم تو مل نہیں پائے کسی طرح

دنیا کا ظلم ہم پہ جواں اس قدر ہوا

گھبرا کے دشمنوں کو گلے سے لگا لیا

اپنے ہی دوستوں سے زیاں اس قدر ہوا

اب تو بھنور میں ڈوب کے رہنا ہے ہر طرف

ساحل سے دور اپنا نشاں اس قدر ہوا

لوگوں سے اب تو کوئی بھی شکوہ نہیں ہمیں

جب یہ فلک ہی دشمنِ جاں اس قدر ہوا

پھر ہو سکی نہ میری منظم یہ زندگی

تجھ سے بچھڑ کے سیل رواں اس قدر ہوا

صحرا میں بہہ چکی ہیں یہ آنکھوں کی ندیاں

دل سے کمال آہ و فغاں اس قدر ہوا

دشمن نہیں وہ اپنے ہی تھے راز کھل گیا

روشن فساد میں یہ مکاں اس قدر ہوا

اللہ رکھے فن کو مِری بد نظر سے دور

ورنہ یہ لکھنا مجھ پہ گراں اس قدر ہوا


تاثیر صدیقی

No comments:

Post a Comment