Saturday, 24 December 2022

یہ میں جو خود سے باہر بہہ رہا ہوں

یہ میں جو خود سے باہر بہہ رہا ہوں

نئے رستے بنا کر بہہ رہا ہے

کسی نے پاؤں کیا مجھ میں بھگوئے

خوشی میں پُل سے اوپر بہہ رہا ہوں

شکایت تھی تجھے اے دیدۂ تر

لے اب تیرے برابر بہہ رہا ہوں

بہت مدت سے میں جو منجمد تھا

تیری باتوں میں آ کر بہہ رہا ہوں

تمہیں سیراب کرنے کے لیے بھی

تمہاری خاک اندر بہہ رہا ہوں

میں اپنی عمر کے پیالے سے احمد

مجھے لگتا ہے اکثر بہہ رہا ہوں


احمد جہانگیر داجلی

No comments:

Post a Comment