یہ میں جو خود سے باہر بہہ رہا ہوں
نئے رستے بنا کر بہہ رہا ہے
کسی نے پاؤں کیا مجھ میں بھگوئے
خوشی میں پُل سے اوپر بہہ رہا ہوں
شکایت تھی تجھے اے دیدۂ تر
لے اب تیرے برابر بہہ رہا ہوں
بہت مدت سے میں جو منجمد تھا
تیری باتوں میں آ کر بہہ رہا ہوں
تمہیں سیراب کرنے کے لیے بھی
تمہاری خاک اندر بہہ رہا ہوں
میں اپنی عمر کے پیالے سے احمد
مجھے لگتا ہے اکثر بہہ رہا ہوں
احمد جہانگیر داجلی
No comments:
Post a Comment