پیروں کے زخم دیکھ کے زنجیر رو پڑی
وہ درد تھا کہ درد کی تفسیر رو پڑی
کمرے میں لڑ رہے تھے سبھی جائیداد پر
دیوار پر لگی ہوئی تصویر رو پڑی
میں نے فقط بتایا کہ آتی نہیں ہے نیند
زار و قطار ہو کے وہ دلگیر رو پڑی
عادت تھی کشت و خون کی جس نامراد کو
شو کیس میں سجی ہوئی شمشیر رو پڑی
ہنس ہنس کے میری آنکھ سے آنسو نہیں تھمے
اس بے بسی کو دیکھ کے تقدیر رو پڑی
میں کج روش نہ بدلا تو اک دن وہ گلبدن
سہ سہ کے روز روز کی تاخیر رو پڑی
لکھنے لگا تھا پیاس کی دریا سے گفتگو
اوراق بلبلا اٹھے،۔ تحریر رو پڑی
دو چار روز بعد ہوا جانا اس کے گھر
کھولا کواڑ، ہو کے بغلگیر رو پڑی
شاعر یا شاعری سے اسے کچھ شغف نہ تھا
سن کر نہ جانے کس لیے وہ ہیر رو پڑی
دانش ہے مبتلائے محبت کسی کے ساتھ
وہ سادہ لوح کیا کرے؟ تدبیر رو پڑی
دانش عزیز
No comments:
Post a Comment