Friday 30 December 2022

پیروں کے زخم دیکھ کے زنجیر رو پڑی

 پیروں کے زخم دیکھ کے زنجیر رو پڑی

وہ درد تھا کہ درد کی تفسیر رو پڑی

کمرے میں لڑ رہے تھے سبھی جائیداد پر

دیوار پر لگی ہوئی تصویر رو پڑی

میں نے فقط بتایا کہ آتی نہیں ہے نیند

زار و قطار ہو کے وہ دلگیر رو پڑی

عادت تھی کشت و خون کی جس نامراد کو

شو کیس میں سجی ہوئی شمشیر رو پڑی

ہنس ہنس کے میری آنکھ سے آنسو نہیں تھمے

اس بے بسی کو دیکھ کے تقدیر رو پڑی

میں کج روش نہ بدلا تو اک دن وہ گلبدن

سہ سہ کے روز روز کی تاخیر رو پڑی

لکھنے لگا تھا پیاس کی دریا سے گفتگو

اوراق بلبلا اٹھے،۔ تحریر رو پڑی

دو چار روز بعد ہوا جانا اس کے گھر

کھولا کواڑ، ہو کے بغلگیر رو پڑی

شاعر یا شاعری سے اسے کچھ شغف نہ تھا

سن کر نہ جانے کس لیے وہ ہیر رو پڑی

دانش ہے مبتلائے محبت کسی کے ساتھ

وہ سادہ لوح کیا کرے؟ تدبیر رو پڑی


دانش عزیز

No comments:

Post a Comment