یہاں سے ہے کہانی رات والی
کہ وہ اک رات تھی برسات والی
کہا تھا جو وہی کر کے دکھایا
وہ برق بے اماں تھی بات والی
بڑی لمبی پلاننگ کر رہی ہے
ہماری زندگی لمحات والی
ہمارے دن گئے خالی پڑی ہیں
سبھی الماریاں سوغات والی
نہ اب وہ گھر میں تہذیبی توازن
نہ اب وہ کوٹھری جنات والی
جسے دیکھو چھپا پھرتا ہے خالد
جماعت آ گئی میوات والی
خالد محمود
No comments:
Post a Comment