Tuesday 20 December 2022

زیب اس کو یہ آشوب گدائی نہیں دیتا

 زیب اس کو یہ آشوب گدائی نہیں دیتا

دل مشورۂ ناصیہ سائی نہیں دیتا

کس دھند کی چادر میں ہے لپٹی کوئی آواز

دستک کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا

ہے تا حد امکاں کوئی بستی نہ بیاباں

آنکھوں میں کوئی خواب دکھائی نہیں دیتا

عالم بھی قفس رنگ ہے ایسا کہ نظر کو

اس دام تحیر سے رہائی نہیں دیتا

یادوں کو سلا دیتا ہے سائے میں شجر کے

وہ حوصلۂ درد رسائی نہیں دیتا

آرائش جاں کے لیے کافی نہیں وحشت

مجھ کو تو کوئی زخم دکھائی نہیں دیتا

اس عشق میں کچھ شائبہ حرص بھی ہو گا

میں قوت باطن کی صفائی نہیں دیتا

روشن ہے شب ہجر بہ انداز تعلق

وہ مہر نظر داغ جدائی نہیں دیتا


فصیح اکمل

No comments:

Post a Comment