زیب اس کو یہ آشوب گدائی نہیں دیتا
دل مشورۂ ناصیہ سائی نہیں دیتا
کس دھند کی چادر میں ہے لپٹی کوئی آواز
دستک کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا
ہے تا حد امکاں کوئی بستی نہ بیاباں
آنکھوں میں کوئی خواب دکھائی نہیں دیتا
عالم بھی قفس رنگ ہے ایسا کہ نظر کو
اس دام تحیر سے رہائی نہیں دیتا
یادوں کو سلا دیتا ہے سائے میں شجر کے
وہ حوصلۂ درد رسائی نہیں دیتا
آرائش جاں کے لیے کافی نہیں وحشت
مجھ کو تو کوئی زخم دکھائی نہیں دیتا
اس عشق میں کچھ شائبہ حرص بھی ہو گا
میں قوت باطن کی صفائی نہیں دیتا
روشن ہے شب ہجر بہ انداز تعلق
وہ مہر نظر داغ جدائی نہیں دیتا
فصیح اکمل
No comments:
Post a Comment