وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم سے، نئی محفلیں سجاؤ
انہیں کیا خبر؟ ہیں تازہ مرے درد کے الاؤ
مِرا دل اٹھا سکے گا نہ امید کی کِرن بھی
مِری شامِ غم میں لوگو! نہ چراغ تم جلاؤ
مِرے حال پر رفیقو! نہ دوا کی فکر کیجو
مجھے وحشتِ جنوں ہے، کوئی سنگ آزماؤ
یہ دماغ ڈھونڈتا ہے اسی پیرہن کی خوشبو
کبھی اس گلی سے ہو کر بھی نسیمِ صبح آؤ
ابھی غُنچگی نے کھولی ہیں بہار میں نگاہیں
یہ حیاتِ مختصر ہے، شب و روز مسکراؤ
ہیں بہت طویل عابد! مِری فُرقتوں کی راتیں
کوئی دل کا تار چھیڑو، کوئی شعر گنگناؤ
عابد اللہ غازی
No comments:
Post a Comment