در کو دیوار کرنے والی تھی
جب وہ انکار کرنے والی تھی
شاہزادی کو تاج لے بیٹھا
ورنہ اقرار کرنے والی تھی
میں بتاتا ہوں، ہم کہاں پر تھے
تُو مجھے پیار کرنے والی تھی
عشق، اور وہ بھی میرے جیسے سے
تُو بھی کیا یار! کرنے والی تھی
نہ خدا ہوں، نہ میں مجازی خدا
کیوں گنہگار کرنے والی تھی
آنکھ کر لی ہے بند، لو کر لو
وہ جو اک بار کرنے والی تھی
مشکلوں میں رہا، یقیں رازق
بُھوک انکار کرنے والی تھی
بیل سُوکھی ہے پھیلی بانہوں پر
تُو جنہیں ہار کرنے والی تھی
میں نے چلتے لہو کو روک لیا
وہ مجھے پار کرنے والی تھی
موت کو ڈھال کر لیا میں نے
زندگی وار کرنے والی تھی
شعیب کیانی
No comments:
Post a Comment