Saturday 24 December 2022

چھاؤں پیتی ہے دھوپ کھاتی ہے

 چھاؤں پیتی ہے، دھوپ کھاتی ہے

شب سدا کی چڑیل جاتی ہے

اک ستارے پہ آن بیٹھے ہیں

ہاتھ میں چاند کی چپاتی ہے

اور کچھ ہو نہ ہو زمانے میں

ایک دائم سی بے ثباتی ہے

میرے دکھ درد گو زمینی ہیں

میری تنہائی کائناتی ہے

مجھ میں رنگوں کے پر نکل آئے

ایک تتلی مجھے اڑاتی ہے

جھیل کو تیرنا نہیں آتا

اپنے پانی میں ڈوب جاتی ہے

دیکھ کر گھر کی حالتِ خستہ

میری تصویر مسکراتی ہے

اس لیے دیو کو نہیں مارا

اک پرندے کی جان جاتی ہے

ایک نلکی مہین دھاگے کی

دستِ خیاط کو گھماتی ہے

باز آتے نہیں محبت سے 

اپنی فطرت ہی وارداتی ہے

زندگی کتنی اچھی ٹیچر ہے

زندگی بھر سبق سکھاتی ہے

اب پرندوں کو کون سمجھائے

شاخِ چھتنار کٹ بھی جاتی ہے

چلنے لگتا ہے راستہ مجھ میں

میری بچی قدم اٹھاتی ہے

اب تو ہونے سے کچھ نہیں ہوتا

اب تو ہونا بھی نفسیاتی ہے

دست تاریخ سے نکلتے ہی

جنگ ذہنوں میں پھیل جاتی ہے

آتے آتے بھی شاعری ناصر

اک زمانے کے بعد آتی ہے


نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment