یاد رکھنے کا بھی وعدہ ہو ضروری تو نہیں
بھول جانے کا ارادہ ہو، ضروری تو نہیں
نام اچھا سا کوئی ہم نے رکھا ہے لکھ کر
دل کا کاغذ ابھی سادہ ہو ضروری تو نہیں
اس تبسم کو مِرے دکھ کی علامت نہ سمجھ
یہ کسی غم کا لبادہ ہو، ضروری تو نہیں
یوں ہی اک بار کبھی ایک نظر ڈالی تھی
اس کو احساس زیادہ ہو ضروری تو نہیں
ہاں حساب غمِ دوراں تو بہت مشکل ہے
اور پھر اس کا اعادہ ہو ضروری تو نہیں
بیش قیمت ہے بہت سرخیٔ خونِ دل بھی
روبرو جام میں بادہ ہو ضروری تو نہیں
ساری دنیا کے خزانے بھی میسر ہوں جسے
ہاتھ بھی اس کا کشادہ ہو، ضروری تو نہیں
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment