ڈوبتے دل کا یہ منظر دیکھو
کتنے بکھراؤ ہیں اندر دیکھو
آئینہ دیکھ کے جینے والو
دور حاضر کے بھی تیور دیکھو
بجھ گئی ماتھے کی ایک ایک شکن
خالی ہاتھوں کا مقدر دیکھو
سنگ اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں صنم
دور رسوائیٔ آذر دیکھو
اپنا ہی عکس دگر دیکھو گے
اپنے اندر سے جو باہر دیکھو
ہم جہاں آبلہ پا چلتے ہیں
تم بھی اس راہ پہ چل کر دیکھو
پیاس دھرتی کی بجھی ہے نہ بجھے
پی گئی سات سمندر دیکھو
ہم نہتوں پہ شرر ٹوٹ پڑا
شومیٔ بخت کا لشکر دیکھو
شرر فتحپوری
رام سنگھ
No comments:
Post a Comment