مجھے شعور بھی خواہش کا داغ لگنے لگا
جہاں بھی دل کو لگایا، دماغ لگنے لگا
تلاش اتنا کیا روشنی کو جنگل میں
تھکن کے بعد اندھیرا چراغ لگنے لگا
کمال درجہ کی شفافیت تھی آنکھوں میں
خود اپنا عکس مجھے ان میں داغ لگنے لگا
پلک پرندہ تھا، لب پھول اور زلف شجر
وہ چہرہ پہلی نظر میں ہی باغ لگنے لگا
تو سامنے تھا مگر کوئی اور لگ رہا تھا
پسِ خلائے محبت سراغ لگنے لگا
علی شیران
No comments:
Post a Comment