یہ لگتا ہے مکمل ہو گیا ہوں
سبھی کہتے ہیں؛ پاگل ہو گیا ہوں
نظر آنے لگا ہوں خود کو جب سے
تِری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہوں
تمہارے بعد کوئی آ نہ پائے
میں اندر سے مقفل ہو گیا ہوں
کبھی رکھتا تھا پلکوں پر نمی سی
مگر اب تو میں بادل ہو گیا ہوں
وہ جنگل تھا، جو بستی بن گیا ہے
میں اک بستی تھا، جنگل ہو گیا ہوں
بظاہرایک آنسو بھی نہ ٹپکا
مگر اندر سے جل تھل ہو گیا ہوں
اسے دیکھا ہے آصف راز جب سے
میں تھا اک مسئلہ، حل ہو گیا ہوں
آصف راز
No comments:
Post a Comment