وہ بظاہر جو میرے ساتھ رہا کرتا تھا
درمیاں فاصلہ کوسوں کا رکھا کرتا تھا
اچھا لگتا تھا اسے مجھ کو بُلانا شاید
وہ بہانے سے میرا نام لِیا کرتا تھا
چکھ لیا اس نے زمانے کی ہوا کو آخر
جو محبت کو عبادت بھی کہا کرتا تھا
کس طرح اس کے خلاف اپنی گواہی دیتا
وہ بُرا ہو گا، مگر میری حیا کرتا تھا
میری یادوں کی حفاظت نہیں کر پایا وہ
اُس کی عادت تھی پرندوں کو رِہا کرتا تھا
میری دِیوار کے سائے میں ٹھہرنے والا
میرے دروازے پہ اک دُھوپ رکھا کرتا تھا
کر دیا خود کو دعاؤں کے حوالے اس نے
جو میرے واسطے دن رات دُعا کرتا تھا
کوئی شکوہ ہی نہیں مجھ کو زمانے سے مراد
جو بھی کرتا تھا میرے ساتھ خدا کرتا تھا
رحمان امجد مراد
No comments:
Post a Comment