پروین شاکر
وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو
ادب سے روٹھ گئی آج وہ مگر خوشبو
ہر ایک رنگ تھا اس کے سخن اجالے میں
دھنک گلاب شفق تتلیوں کے پر خوشبو
اسے قرینہ تھا ہر ایک بات کہنے کا
سماعتوں کے وہ سب کھولتی تھی در خوشبو
وہ خود کلامی تِری تیرا جبر سے انکار
ہیں تیری سوچ کے صد برگ نامہ بر خوشبو
جو تیرے پھول سے بکھری ہے ان ہواؤں میں
ہمیشہ کرتی رہے گی وہ اب سفر خوشبو
نہ جانے اتریں کہاں سے وہ ساعتیں سفاک
نہ جانے کس کی تجھے لگ گئی نظر خوشبو
ادب میں اس کا بدل کوئی بھی نہیں ہے جلیل
سخن میں اس نے بکھیری جو معتبر خوشبو
احمد جلیل
No comments:
Post a Comment