Friday 30 December 2022

وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو

 پروین شاکر


وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو

ادب سے روٹھ گئی آج وہ مگر خوشبو

ہر ایک رنگ تھا اس کے سخن اجالے میں

دھنک گلاب شفق تتلیوں کے پر خوشبو

اسے قرینہ تھا ہر ایک بات کہنے کا

سماعتوں کے وہ سب کھولتی تھی در خوشبو

وہ خود کلامی تِری تیرا جبر سے انکار

ہیں تیری سوچ کے صد برگ نامہ بر خوشبو

جو تیرے پھول سے بکھری ہے ان ہواؤں میں

ہمیشہ کرتی رہے گی وہ اب سفر خوشبو

نہ جانے اتریں کہاں سے وہ ساعتیں سفاک

نہ جانے کس کی تجھے لگ گئی نظر خوشبو

ادب میں اس کا بدل کوئی بھی نہیں ہے جلیل

سخن میں اس نے بکھیری جو معتبر خوشبو


احمد جلیل

No comments:

Post a Comment