Tuesday 27 December 2022

جانے کیوں فقر کے رستے مرے گھر تک آئے

 جانے کیوں فقر کے رستے مرے گھر تک آئے

ان کو جانا تو وہ میزان گہر تک آئے

کوئے دمساز سے نکلے تو نگوں سر نہ ہوئے

واں سے لوٹے تھے جو پتھر، مرے گھر تک آئے

کتنے پتوں نے ہواؤں سے لڑی جنگِ ہنر

کتنی مشکل سے ثمر ان کے شجر تک آئے

کتنے بے ساختہ آنسو تھے کفِ رنجش میں

کتنے رومالِ صبا، دیدۂ تر تک آئے

کس سے معلوم کریں شعبدۂ جاں کیا ہے

کتنے منظر تھے جو اس قیدِ نظر تک آئے

چومنے کس کے قدم گردشِ زنجیر آئی

اور ہم محض یاں رسمِ سفر تک آئے


شکیب ایاز

No comments:

Post a Comment