جانے کیوں فقر کے رستے مرے گھر تک آئے
ان کو جانا تو وہ میزان گہر تک آئے
کوئے دمساز سے نکلے تو نگوں سر نہ ہوئے
واں سے لوٹے تھے جو پتھر، مرے گھر تک آئے
کتنے پتوں نے ہواؤں سے لڑی جنگِ ہنر
کتنی مشکل سے ثمر ان کے شجر تک آئے
کتنے بے ساختہ آنسو تھے کفِ رنجش میں
کتنے رومالِ صبا، دیدۂ تر تک آئے
کس سے معلوم کریں شعبدۂ جاں کیا ہے
کتنے منظر تھے جو اس قیدِ نظر تک آئے
چومنے کس کے قدم گردشِ زنجیر آئی
اور ہم محض یاں رسمِ سفر تک آئے
شکیب ایاز
No comments:
Post a Comment