Friday, 30 December 2022

جسم و جاں رکھتا ہوں لیکن یہ حوالہ کچھ نہیں

 جسم و جاں رکھتا ہوں لیکن یہ حوالہ کچھ نہیں

آپ کی نسبت ہے سب کچھ، میرا اپنا کچھ نہیں

عشق جس کوچہ میں رہتا ہے وہ کوچہ ہے بہشت

عقل جس دنیا میں رہتی ہے، وہ دنیا کچھ نہیں

کتنے سادہ لوح تھے اگلے زمانے کے وہ لوگ

کہہ دیا جو دل میں آیا، دل میں رکھا کچھ نہیں

دیکھنے والا کوئی ہوتا تو ہم بھی کھیلتے

تھے تماشے سیکڑوں لیکن دکھایا کچھ نہیں

آ کے جو سیراب کرتی ہے زمینِ خشک کو

اصل میں ہے موجِ دریا، شورِ دریا کچھ نہیں

اس طرف ہے میری وحشت اس طرف تیرا جمال

وہ حقیقت دائمی ہے،۔ یہ تماشا کچھ نہیں

جانے کس کی جستجو میں تھی حیات مختصر

عمر بھر بھاگا کیے،۔ اور ہاتھ آیا کچھ نہیں

یہ حسیں منظر یہ بحر و بر یہ سب ماہ و نجوم

تیری قدرت کا کرشمہ ہیں کسی کا کچھ نہیں

پیش کرنا ہے تو اس کو پیش کیجے دل ضیا

یار کی نظروں میں دنیا کا اثاثہ کچھ نہیں


ضیا فاروقی

No comments:

Post a Comment