تیرے بن میرا جیون فسانہ سا ہے
یہ نیا سال کتنا پرانا سا ہے
بے زمیں کو زمیں کھا رہی ہے یہاں
بے نشاں ہی تو اس کا نشانہ سا ہے
غار کے دور میں جی رہے ہیں ابھی
یہ زمانہ تو پہلا زمانہ سا ہے
دھول ہی دھول ہے آج چاروں طرف
اور وہ کہتے ہیں؛ منظر سہانا سا ہے
یہ جو شاخوں میں شعلے بھڑکتے ہیں اب
ان میں دیکھو کوئی آشیانہ سا ہے
میرے اشکوں پہ ہنسنے لگے ہیں سبھی
جانتا ہوں یہاں مسکرانا سا ہے
بات کرنا بھی ممکن نہیں اب رضی
سانس لینا بھی اک تازیانہ سا ہے
رضی الدین رضی
No comments:
Post a Comment