Thursday, 29 December 2022

تیرے بن میرا جیون فسانہ سا ہے

 تیرے بن میرا جیون فسانہ سا ہے 

یہ نیا سال کتنا پرانا سا ہے 

بے زمیں کو زمیں کھا رہی ہے یہاں 

بے نشاں ہی تو اس کا نشانہ سا ہے

غار کے دور میں جی رہے ہیں ابھی

یہ زمانہ تو پہلا زمانہ سا ہے

دھول ہی دھول ہے آج چاروں طرف

اور وہ کہتے ہیں؛ منظر سہانا سا ہے 

یہ جو شاخوں میں شعلے بھڑکتے ہیں اب 

ان میں دیکھو کوئی آشیانہ سا ہے

میرے اشکوں پہ ہنسنے لگے ہیں سبھی

جانتا ہوں یہاں مسکرانا سا ہے

بات کرنا بھی ممکن نہیں اب رضی 

سانس لینا بھی اک تازیانہ سا ہے 


رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment