الفاظ کے بدن کو لباس خیال دے
حرفِ نوا کو پیکر معنی میں ڈھال دے
دشواریٔ حیات کو دشوار تر بنا
جس کا جواب بن نہ پڑے وہ سوال دے
سرمستیوں کی موج میں لہرا کے جھوم جا
اٹھ اور ایک جام فضا میں اچھال دے
اہلِ خرد کو سونپ نہ دنیا کی باگ ڈور
کارِ زمانہ اہلِ جنوں کو سنبھال دے
لذت شناس تلخیٔ امروز ہوں شرر
پھر مصلحت نہ عشرتِ فردا پہ ٹال دے
شرر فتحپوری
رام سنگھ
No comments:
Post a Comment