کہاں کی آہ و زاریاں ملال تک نہیں ہوا
دل خراب پائمال یک بہ یک نہیں ہوا
بکھر گئے تھے ٹوٹ کر مگر ہم اس کے بعد ہی
کچھ اس طرح سنبھل گئے کسی کو شک نہیں ہوا
بڑی ہی کربناک تھی وہ پہلی رات ہجر کی
دوبارہ دل میں ایسا درد آج تک نہیں ہوا
ستم گروں سے دوستی چلی تمام زندگی
ستم زدوں پہ مہرباں مگر فلک نہیں ہوا
عقیلؔ مرگ آرزو کوئی خبر نہ بن سکی
یہ حادثہ ہوا مگر لب سڑک نہیں ہوا
عقیل نعمانی
No comments:
Post a Comment